Latest

6/trending/recent
Type Here to Get Search Results !

Gazah ke Ansoo By Shaeena Jamal Butt

Gazah ke Ansoo By Shaeena Jamal Butt


Gazah ke Ansoo By Shaeena Jamal Butt
Gazah ke Ansoo By Shaeena Jamal Butt

Gazah ke Ansoo By Shaeena Jamal Butt


 ”غزہ کے آنسو“


دن پہ رات کی تاریکی پھیلی ہوئی تھی۔ صاف فضا میں آتشی مادے گردش کرتے پورے شہر کا چکر کاٹ رہے تھے۔ سیاہ ، نارنجی، اور سرخ رنگ ہولی منا رہے تھے۔ سیاہ رنگ دھویں میں لپٹا فضا میں حریت کی سانس لینے کے لیے پورے منظر پر دراز ہونے لگا۔۔۔۔نارنجی رنگ بھی آتش میں قید گرمی کی شدت سے چھٹکارا پانے کے لیے شہر میں بپھرنے لگا۔۔۔۔اب باقی تھا تو سرخ رنگ۔۔۔۔جو اس ہولی میں کھیلتے کھیلتے شاید مقابلے بازی پہ اتر آیا تھا۔۔۔۔۔سرخ رنگ خون میں لپٹا نگر نگر سڑک پہ پڑے بے جان جثوں کے کفن پر راج کرنے لگا۔ نہ جانے کیسی جنگ چھڑ چکی تھی۔ وقت رنگوں کے اس جھگڑے پہ ساکت ہو چکا تھا کیونکہ رنگ اس قدر پھیل چکے تھے کہ وقت کی آنکھیں چلنے کے لیے راستہ تلاش نہیں کر پا رہی تھیں۔ ظلم کی رسی کھل چکی تھی جس کی ڈور اس شہر پہ راج کرنے والے سرخ رنگ کے ہاتھ تھی۔ گنتی کسی سٹاپ واچ کی طرح رک گئی۔۔۔تھک چکی تھی مردہ جسموں کو گن گن کر۔۔۔۔ جبر کی مسلسل زد و کوب سے مردہ جسموں کی ہڈیاں باہر جھانکنے لگی تھیں۔ شہر غزہ کا غین غلامی کی بھینٹ ، ز۔۔۔ظلم کے زیر اور ہ۔۔۔زیست سے ہار کا مقدر بن چکا تھا۔ اس سمے بربریت کا انوکھا راج تھا۔ اس جنگ سے پرے اس کھڑکی کے پار بیٹھا کہانی کار اس سارے منظر کو رنگوں کے ذریعے قرطاس پہ اپنی ہمدردی کے لبادے کا کچھ حصہ پہنا کر ان جثوں کو اس سفید کاغذ کا کفن پہنا کر تعظیم پیش کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔۔سب مر گئے سب کے سب اس سرخ رنگ کی بھینٹ چڑھ گئے تو یہ کہانی کار کیسے زندہ بچا۔۔۔۔ایک سوال نے جنم لیا۔۔۔۔جس کے اختتام پہ وقفے نے سانس لیا۔ 

پہلے صفحے پہ کسی طفل کی تصویر تھی جو مری ہوئی ماں کا دودھ پیتے پیتے سو چکا تھا۔ اس بچے کا بچپن یتیمی کا لباس اوڑھے آنکھوں میں آنسو لیے سوال کنندہ تھا۔۔۔۔آخر اس کا کیا قصور۔۔۔۔اس سوال کے اختتام پہ سوالیہ نشان واقعی لا جواب تھا اور نہ ہی یہاں کسی وقفے نے جواب دینے کے لیے سانس لیا۔۔۔۔یہاں کہانی کار بھی بے بس تھا۔۔۔۔اس بچپن سے معذرت خواں تھا پھر صفحہ پلٹا گیا ایک بوڑھی ماں جس کا بیٹا پردیس سے واپس آ رہا تھا نہ جانے کتنے سالوں کا انتظار بوڑھی ماں کے چند قدم دوری کے وقفے کو کھا گیا۔۔۔ہائے۔۔۔۔۔بیٹا سفید وردی میں ملبوس ماں سے چند قدم دور ملنے ہی والا تھا کہ درمیانی فاصلے نے ہاتھ روک لیے اور چھاتی سرخ چھینٹوں سے بھر گئی۔۔۔۔ماں کا حلق باہر آگیا۔۔۔اب تو بمباری کا حلق سے ٹکرانا آسان ہو گیا تھا۔۔۔۔دو جسموں کی ایک جان فضا میں حائل سیاہ دھویں کی نذر ہو گئی۔۔۔۔تعظیما کاغذ کا سفید لباس ان جسموں پر چھوٹا پڑ رہا تھا۔۔۔مگر کہانی کار کفن کا کچھ حصہ اپنے لفظوں سے پہنا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں کہانی کار نے بیٹے کا سر بوڑھی ماں کی لرزتی گود میں رکھ دیا۔۔۔۔ماں تو سوتے ہوئے بھی جاگتی ہے نا۔۔۔۔بیٹے کی قربت محسوس کر لے گی۔۔۔۔اس کے بعد تیسری تصویر عروسی لباس میں ملبوس اس خاتون کی تھی جس کے ماتھے پہ غزہ کی موت کا جھومر تھا۔۔۔۔جس کی بند آنکھوں کے گرد جفاکاریوں کی پنچایت سیاہ حلقوں میں بیٹھی سرگوشی میں مگن تھی۔۔۔۔ہونٹوں پہ بے قصور موت کا قفل تھا۔۔۔ہاتھوں میں سرخ ٹوٹی چوڑیاں سہمی ہوئی تھیں۔۔۔۔پیروں میں پائل کی کھنک کہیں دب چکی تھی۔۔۔۔لباس تو پہلے سے سرخ تھا ہی اب یہاں اس سرخ رنگ کو بڑی دشواری ہوئی۔۔۔۔یہاں سرخ رنگ کو ان ٹوٹی چوڑیوں کے کانٹے دار کنارے سے زخمی ہونے کا خدشہ ہونے لگا۔۔۔۔مگر پھر بھی چہرے اور ہاتھ پاؤں پر اپنا پورا جال پھیلا کر رخصت ہو چکا تھا۔۔۔۔کہانی کار کو اس خاتون پہ بہت ترس آیا صفحے پہ پھر سے اسے تیار کر کے چوڑیاں پہنا کر اسے نئے لباس میں جگہ دی مگر اب کی بار اس کا لباس سفید تھا۔۔۔۔کہانی کار اگلا صفحہ موڑنے ہی والا تھا کہ اب کی بار صفحے نے خود حرکت کی اور ڈرتے ڈرتے مڑنے لگا۔۔۔۔کہانی کار کو صفحے کی اس عجلت پہ حیرانی ہوئی اگلا صفحہ سفید نہیں تھا۔۔۔۔نہ سرخ تھا۔۔۔۔۔ بلکہ سرخ ، نارنجی اور سیاہ رنگ میں لپٹا پورے غزہ کے شہر کو اپنے اوپر بکھیرے ہوئے تھا۔۔۔۔یہاں کہانی کار کے پاس پورا اختیار تھا۔۔۔کہانی کار نے اس صفحے پہ اس شہر کے ظالموں کی غلاظت کو اپنے آنسوؤں سے دھونا شروع کیا۔۔۔۔۔۔آج کہانی کار اتنا رویا اتنا رویا کہ اس کے وجود میں نیلی روشنائی ختم ہو چکی تھی۔۔۔۔غزہ کا درد لکھتے لکھتے وہ کانپنے لگا تھا۔۔۔۔غزہ کے لوگوں کو کفن پہناتے پہناتے وہ ہر چیز سے محروم ہو گیا تھا۔۔۔۔روشنائی۔۔۔۔قرطاس۔۔۔۔الفاظ۔۔۔۔۔حتی کہ آنسوؤں سے بھی۔۔۔کیونکہ وہ کہانی کار کوئی اور نہیں بلکہ خود ایک قلم تھا۔


(شائنہ جمال بٹ)


OTHER NOVEL LINKS:


Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.